Edhi Foundation since 1951- Thanks to Express

عبدالستارایدھی کا ایک کمرے سے شروع ہونے والا سفر.
 سید بابر علی. شکریہ ایکسپریس
ایدھی فاؤنڈیشن انسانی فلاح بہبود کا ایسا ادارہ ہے جس کی بنیاد 1951میں عبدالستارایدھی نے رکھی اور یہ فاؤنڈیشن گذشتہ 63 سال سے شب روز فلاحی کاموں میں مصروفِ عمل ہے، انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار عبدالستار ایدھی نے ایک کمرے میں ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جو آج پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دیہات میں لوگوں کو بلاتعطل خدمات فراہم کر رہی ہے جب کہ صرف کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے 8 اسپتال کام کر رہے ہیں اور گھر سے بھاگ جانے والے بچوں، نفسیاتی مریضوں ، بے سہارا خواتین کے لیے ’’اپناگھر‘‘ کے نام سے 15 شیلٹر ہوم قایم کیے گئے ہیں۔

ایدھی ایمبولینس سروس: 1952میں ایک سیکنڈ ہینڈ پک اپ ٹرک کو خرید کر ایمبولینس میں تبدیل کیا گیا۔ یہ ایدھی فاؤنڈیشن کی پہلی ایمبولینس تھی، جسے ’’غریب مریضوں کی ایمبولینس ‘‘ کا نام دیا گیا۔ آج 62 برس بعد ایدھی ایمبولینس سروس کو دنیا کا سب سے بڑا نجی ایمبولینس کارواں رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔اس وقت پورے پاکستان میں ایدھی کی 18سو ایمبولینسیں رواں دواں ہیں، جب کہ ہنگامی بنیادوں پر مریضوں اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کے لیے دو جہازوں اور ایک ہیلی کاپٹر پر مشتمل ایدھی ایئر ایمبولینس سروس بھی موجود ہے۔ سیلاب سے متاثر افراد کی خدمت کے لیے 28ریسکیو بوٹس پر مشتمل ایدھی میرین ایمبولینس سروس ہے۔

چائلڈ ایڈاپشن سینٹر: عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی کی سربراہی میں ملک کے بیش تر ایدھی مراکز پر بچوں کے جھولے رکھے گئے، جس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنے بچوں کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے یا مارے کے بجائے ایدھی سینٹرز پر رکھے گئے ان جھولوں میں ڈال دیں۔ جھولے میں ملنے والے ان بچوں کو بلقیس ایدھی کی زیرنگرانی ایدھی ہوم میں رکھا جاتا ہے۔ان لاوارث بچوں میں سے زیادہ تر کو اولاد کی نعمت سے محروم مستحق جوڑوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے حوالے کرنے کے مراحل کی بلقیس ایدھی خود کڑی جانچ پڑتال کرتی ہیں، جس کے بعد اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ بچے کا خواہش مند جوڑا یا خاندان بچے کی اچھی طرح پرورش کرنے کے اہل ہیں یا نہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن اوسطاً ہر سال 250 بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے سپرد کرتی ہے، مجموعی طور پر اب تک 23,320  بچوں کو بے اولاد جوڑے گود لے چکے ہیں۔

ایدھی رکشا روزگار اسکیم: ایدھی فاؤنڈیشن ضرورت مند افراد کی مدد کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے۔ جب حکومت نے آلودگی کا سبب بننے والے KTR اورKCR ٹواسٹروک رکشوں پر پابندی عاید کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پرانے رکشوں پر پابندی کے بعد اچانک پیدا ہونے والی بے روزگاری کو مدنظر رکھتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن نے سی این جی رکشے فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس روزگار اسکیم کے تناظر میں دو باتوں کو مدنظر رکھا گیا: اول معاشرے میں بے روزگاری کا خاتمہ اور دویم ماحولیاتی آلودگی اور شور میں کمی۔ ایدھی فاؤنڈیشن اس اسکیم کا پہلا مرحلہ شروع کرچکی ہے، جس کے ذریعے 500سی این جی رکشوں کو کراچی میں ٹو اسٹروک رکشوں سے تبدیل کیا جائے گا۔ یہی طریقۂ کار کراچی کے بعد لاہور، ملتان اور حیدرآباد میں بھی دہرایا جائے گا۔

ایدھی قبرستان اور سردخانے: ایدھی فاؤنڈیشن کو پاکستان بھر میں ملنے والی ناقابل شناخت اور لاوارث لاشوں کی تدفین کے سب سے بڑا نیٹ ورک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کراچی، لاہور، راول پنڈی کے علاوہ نیویارک میں بھی ایدھی فاؤنڈیشن نے لاوارث لاشوں کے لیے علیحدہ قبرستان بنائے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے 20 ہزار سے زاید لاوارث لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دے کر اُن کی تدفین کی جو اپنی نوعیت کا منفرد ورلڈ ریکارڈ ہے۔ انہوں نے گلی سڑی، کٹی پھٹی، جلی ہوئی اور ٹکڑوں میں ملنے والی لاشوں کو بھی اپنے ہاتھوں سے غسل دیا۔ تاہم کچھ عرصے قبل انہوں نے طبیعت کی ناسازی کے باعث یہ سلسلہ موقوف کردیا تھا۔پاکستان کے تمام بڑے شہروں کی میٹروپولیٹن کارپورشنز کا حادثات، قتل اور سمندر میں ڈوب کر مرنے والی ناقابل شناخت لاشوں کی تدفین کا ایدھی فاؤنڈیشن سے سالانہ معاہدہ ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے غریب اور مستحق افراد کی تدفین کے لیے تابوت اور کفن بھی مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔ ایدھی مردہ خانے میں غیرمسلموں کو اُن کے مذہبی عقائد کے مطابق غسل اور کفن دیا جاتا ہے۔
ایدھی کی جانب سے سرد خانے کے قیام سے قبل لاوارث لاشوں کو غسل کے بعد میوہ شاہ قبرستان میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ تاہم عبدالستارایدھی نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ لاوارث لاشوں کی فوراً تدفین کے بجائے دو، تین دن ان کے ورثا کو تلاش کیا جانا چاہیے اور اس مقصد کے لیے ایسا سردخانہ بنانے کی ضرورت تھی جہاں لاوارث لاشوں کو ان کے ورثا تک پہنچانے کے لیے محفوظ رکھا جاسکے۔
اس سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 1987میں سہراب گوٹھ کے نزدیک ایدھی سردخانے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت ایدھی سردخانے میں بیک وقت 300 لاشیں رکھنے کی گنجائش ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کو نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا پہلا موبائل سردخانہ بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ دہشت گردی کے کسی بڑے سانحے کی صورت میں زیادہ میتوں کو ملک کے دور دراز علاقوں میں بھیجنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، کیوں کہ خصوصا گرم موسم میں طویل سفر کے دوران لاش کے خراب ہونے کا امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس ’’موبائل سرد خانے ‘‘ نے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل کیا ہے، جس میں 24 لاشیں رکھنے کی گنجائش ہے۔

تعلیمی خدمات: ایدھی فاؤنڈیشن نے قوم کے معماروں کو تعلیم سے روشناس کرانے کا ذمہ بھی اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ کراچی، نواب شاہ اور میرپورخاص میں بلقیس ایدھی ایلیمنٹری اور پرائمری اسکول اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کراچی میں پرانی سبزی منڈی میں قایم بلقیس ایدھی اسکول میں پہلی سے دسویں کلاس تک کہ 430 سے زاید بچے زیرتعلیم ہیں جب کہ ہر سال میٹرک بورڈ کے زیر انتظام ہونے والے امتحانات میں اس اسکول کا نتیجہ 80فیصد رہتا ہے۔ نواب شاہ میں ایدھی ایلیمنٹری اسکول 2002 سے پہلی سے پانچویں کلاس تک بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہا ہے۔ اس اسکول کے طالب علموں کے نتائج بھی تسلی بخش ہیں۔میرپورخاص میں قایم بلقیس ایدھی مڈل اسکول میں 500 سے زاید طالب علم زیرتعلیم ہیں۔ محکمۂ تعلیم حکومت سندھ سے رجسٹرڈ اس اسکول میں بچوں کو نرسری سے آٹھویں کلاس تک تعلیم دی جاتی ہے۔

بلڈ بینک: بڑے حادثات، بم دھماکوں اور قدرتی آفات کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاؑع کو روکنے میں اہم قدم زخمیوں کو بلاتعطل خون کی فراہمی ہے۔ اس مقصد کے تحت ایدھی فاؤنڈیشن نے کراچی اور میرپورخاص میں اپنے بلڈ بینک قایم کیے ہیں۔ ان بلڈ بینکوں سے حادثات اور سانحات میں زخمی ہونے والوں کے علاوہ دل کی جراحی اور بڑے آپریشن کروانے والے غریب مریضوں کو بھی بلامعاوضہ خون فراہم کیا جاتا ہے۔

Abdul Sattar Edhi

عبدالستار ایدھی انتقال کرگئے
 إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعون


کانٹوں کی بارش میں مرہم بانٹنے والا
تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں بانٹنے والا
گلیوں گلیوں پیار کی سرگم بانٹنے والا
چلا گیا وہ جھلاّ جوگی، دیوانہ، متوالا
میٹھے گیت سنانے والا
چلا گیا وہ جھلّا جوگی چلا گیا

دُکھ کی ہر آہٹ پر دل اُس کا روتا تھا
ہر دم آہیں بھرتا تھا، آنسو چُنتا تھا
جاگتا رہتا تھا، نہ جانے کب سوتا تھا
چلا گیا وہ جھلاّ جوگی، دیوانہ، متوالا
میٹھے گیت سنانے والا
چلا گیا وہ جھلّا جوگی چلا گیا

اونچ نیچ کی سب دیواروں سے اونچا تھا
اونچی اونچی سب دستاروں سے اونچا تھا
پیار ہی اُس کا دین دھرم تھا، پیار ہی تھا دل دار
پھول لُٹانے کا رسیا تھا، یہی تھا کاروبار
چلا گیا وہ جھلاّ جوگی، دیوانہ، متوالا
میٹھے گیت سنانے والا
چلا گیا وہ جھلّا جوگی چلا گیا

باہر سے اُجڑا اُجڑا پر اندر ہرا بھرا تھا
ایک انوکھی چھب تھی اس کی ایک نیا لشکارا
خالی جیب میں خواب سنہرے بھر رکّھے تھے
جھولی میں سب چاند ستارے بھر رکّھے تھے
مالا مال تھیں آنکھیں اُس کی، سینہ ماہ مثال
بولی اُس کی شہد بھری تھی، عزم تھا کوہ مثال
سارے خزانے دنیا کے اس کے آگے کنگال
چلا گیا وہ جھلاّ جوگی، دیوانہ، متوالا
میٹھے گیت سنانے والا
چلا گیا وہ جھلّا جوگی چلا گیا

کیسا عالی شان سفر تھا، سب دنیا حیراں
تیری یادیں ساتھ ہمارے، ہم تجھ پر نازاں
دُکھ نگری کے سینے میں آباد ہے تیرا نام
بھیگی آنکھوں سے ہم سب کرتے ہیں تجھے سلام
’’انسانوں سے پیار کا رستہ سدا رکھو آباد!‘‘
یاد رہے گا ہمیں ہمیشہ یہ تیرا پیغام
آنسو سب کے پونچھنے والا وہ جھلّا دیوانہ
آنسو دے کر چلا گیا وہ جادوگر متوالا
چلا گیا وہ جھلاّ جوگی، دیوانہ، متوالا
میٹھے گیت سنانے والا
چلا گیا وہ جھلّا جوگی چلا گیا